عالمی کمی کے بعد پاکستان میں سکریپ کی قیمتوں میں اضافہ اور معاشی بحران کی شدت
پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ سال کے آغاز سے ہی پیمنٹ کا شٹ ڈاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے تیار مال کی صورتحال مزید ابتر ہوچکی ہے۔ لوگ سیلاب کے بعد بہتری کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن بدقسمتی سے حالات اس کے برعکس نکلے ہیں، کیونکہ حکمران طبقہ امداد کے لیے تیار نہیں اور جو عالمی ادارے یا ممالک امداد کے لیے آگے بڑھتے ہیں، انہیں بھی روکا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے ڈالر خرید کر اسے مستحکم رکھنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں تاکہ وقتی طور پر کرنسی کو قابو میں رکھا جاسکے، لیکن اس کے نتیجے میں قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ڈالر کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا تو یہ گندم اور چینی کی طرح مہنگائی کی نئی لہر پیدا کرے گا اور عوام شدید مشکلات سے دوچار ہو جائیں گے۔
اس بات کا عندیہ بلوم برگ پہلے ہی دے چکا ہے اور یہ خبر نیشنل ٹی وی پر بھی نشر کی جاچکی ہے، جسے سیلاب کی تباہی کے تناظر میں بیان کیا جا رہا ہے۔ عوام کو ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید شدت اختیار کرے گی اور ملک میں کاروباری سرگرمیاں مزید متاثر ہوں گی۔
مزید یہ کہ حالیہ معاشی سروے رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی کئی بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیز بند ہوچکی ہیں جبکہ بہت سی کمپنیز ڈیفالٹ کر چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں خریدار اور فروخت کنندہ دونوں ہی شدید متاثر ہو رہے ہیں اور مارکیٹ میں اعتماد کی کمی پیدا ہو رہی ہے۔
اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملکی مارکیٹ میں مزید افراتفری اور غیر یقینی پھیل سکتی ہے، جس سے کاروباری طبقے اور عام عوام دونوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری معاشی اصلاحات نہ کی گئیں تو بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔